افضال احمد تتلا، جھمرہ فیصل آباد
چل انشاء اپنے گاؤں میں یہ غزل جب بھی پڑھتا ہوں تو اندر تک سرشار ہو جاتا ہوں۔ گاؤں کی گلیاں، بازار اور چوک چوراہے آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے ہیں مگر بچپن کا گاؤں زیادہ حسین اور پرکشش لگتا تھا۔ پھر سوچتا ہوں کہ گاؤں کا بچپن نہیں ہوتا بچپن تو اپنے اوپر تھا لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تب گاؤں بھی انشاء جی کی غزل والا گاؤں ہی تھا ۔جھمرہ سے شاہ کوٹ سڑک پر 10 کلومیٹر کے فاصلے پر ہمارا ایک سو مربع زمین پر مشتمل گاؤں دیڑھ شریف ہے جو گزرے وقتوں میں سچ مچ شریف تھا۔ پنجاب کے عام دیہاتوں کی طرح گاؤں میں بھی میلوں کا رواج زوروں پر تھا مگر یہ میلے صرف مختلف کھیلوں، کبڈی ، کشتی ، کتوں کی لڑائی اور دیگر دیہاتی شغل تک ہی محدود ہوتے تھے۔ بزرگوں کی باتوں سے پتا چلتا ہے کہ گتکا، وزن اٹھانا جس میں اسپیشل لوہار کی دوکان پے پری ہو آئرن (یہ لوہے کا چوکور ڈھیلا ہوتا ہے جس کے اوپر خام لوہے کو لوہار کوٹتے ہیں اور مختلف اوزاروں بنادیتے ہیں )، پٹ سن کی بوری میں کئی من مٹی ڈال کر اور ویڈی (یہ ایک مضبوط ڈنڈا ہوتا ہے جس کے دونوں سروں کو دو آدمی پکڑ کے چمٹ جاتے اور جو وزن اٹھانے کا دعوے دار ہوتا اس ڈنڈے کو درمیان سے پکڑ کر اٹھاکر اپنے کندھوں تک لے جاتا تھا ) اور سہاگہ اٹھانے کے مقابلے بھی ہوتے تھے جس میں گاؤں کے نوجوان حصہ لیتے تھے جبکہ بچے شغل دیکھنے اور بوڑھے ان نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کیلئے ایسے میلوں میں بھرپور شرکت کرتے ۔ایسی صحت مندانہ سرگرمیاں عیدوں پر بھی ہوتی تھی اور جیتنے والے جوان کو انعام میں خالص دیسی گھی دیا جاتا تھا۔ یعنی جیسے گاؤں کے لوگ سادہ ، بناوٹ سے پاک ، منافقت کے جراثیموں سے بچے ہوئے اور دیسی سے ہوتے تھے ویسے ہی ان کے انعامات خالص ، صحت افزا اور قدرتی ہوتے تھے ۔لٹھ بازی ، دانتوں پہ سہاگہ کھڑا کرنے ، بازی لگانے ودیگر طاقت والے کرتب دکھانے کیلئے شریف بازی گر اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگوں کی خود غرضی اور زمانے کے بدلتے ہوئے جدید تہذیب کے رنگوں نے اس سانجھے فنکار کو ” رگڑا” دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تب گاوں کا ماحول بناوٹ سے پاک ہوتا تھا۔ بابے بتاتے ہیں کہ جب سکول جاتے تو سکول یونیفارم ملیشیا کے کپڑے کی ہوتی جو اکثر عید پر سلائی جاتی تھی اس کے دو فائدے ہوتے تھے ایک تو یہ سوٹ عید پر یہ نئے کپروں کا کام دے جاتا دوسرا سارا سال بطور سکول وردی پہنا جاتا ۔ انشاء جی کے بقول اس دیس بسیرا مت کرنا یہاں مفلس ہونا گالی ہے تب واقعی مفلس ہونا گالی نہیں تھا دیہی علاقوں میں مفلس ہونا گالی تب بنا ہے جب نو دولتیوں کا گروہ وارد ہوا یہ خود ساختہ چودھری جیسے ہی سر نکالنے لگے انہوں نے پیشوں کے اعتبار سے ایسی تقیسم کی روایت ڈالی کہ ذات و برادری نفرت و محبت کا معیار بناڈالا ۔ حالانکہ یہ سب پیشہ ور لوگ اپنے کام میں مہارت رکھنے کی وجہ سے گاؤں میں اپنا مقام رکھتے تھے۔ پورا گاؤں ان کے اخراجات برداشت کرتا تھا مگر اس کے باوجود بچے ان کو چاچا جی ، تایا جی کہہ کر بلاتے اور بڑے ان ہنرمند لوگوں کو احتراماً "پا جی” کہتے ۔ وہ دیہات جو کبھی امن اور بھائی چارے کا پرچار ہوتے تھے یہاں لوگ شہر کی بناوٹی ، بے ہنگم اور شور شرابے والی زندگی سے تنگ آکر قدرتی ، صحت افزا اور شفاف زندگی جینے کیلئے جاتے تھے اب باہمی دشمنیوں ، نفرتوں اور کھینچا تانی کا شکار ہوگئے ہیں۔ پرانے دیہی "بابوں” کی یاد جب آتی ہے تو بے جا منہ سے نکلتا ہے
ٹر گے او لوگ سیانے بیبا،پیپلا ہٹ حقے رہ گے
گاؤں ہو یا شہر انسان جس جگہ پیدا ہوتا ہے اور جن گلی کوچوں میں اس کا بچپن گزرا ہوان کو ذہن سے محو کر دینا اس کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ اگر 90ء کی دہائی کی بات کریں تو غلام حیدر لوہار کی چکی کی کوں کوں ، گاوٴں میں داخل ہوتے ہی ٹالی والی پلی اس کی وجہ تسمیہ ہی وہاں لگا ہوا ٹالی (شیشم) کا درخت تھا جس کی چھاؤں میں گاوں کے کوچوان غلام رسول چھیمبا ، حسن جولاہا ،بابا نواب مرحومین "اللہ ان سب کی مغفرت کرے ، آمین” اپنے تانگے کھڑے کرکے اکھٹے بیٹھ کر حقے کی محفل جماتےاور مختلف قسم کے پرانے کھیل کھیلتے ۔ ٹالی والی پلی کے ساتھ ہی ایک جوہر ہوتا تھا جو ڈئگی کے نام سے مشہور تھا اس ڈئگی میں نہری پانی ڈالا جاتا جس میں گاؤں کے بچے نہاتے، لوگ اپنے مویشیوں کو پانی پلاتے اور گاؤں کی عورتیں یہاں سے مٹی نکال کر گھروں کے لیپ کیلئے لے جاتی تھیں ۔گاوں کے مرکز میں کنواں ہوتا تھا بعدازاں یہ کنواں تو ختم ہوگیا مگر کنویں کی نسبت سے "کھوہ” والا چوک اب بھی موجود ہے ۔ گاؤں کے کچے مکانوں میں بات کے پکے مکین سادہ لوح مگر صاف ستھری زندگی گزارتے تھے۔ عام دیہی علاقوں کی طرح ہمارے گاؤں میں مرد حضرات کی اکثریت صبح اور دوپہر کا کھانا کام کاج کی وجہ سے کھیتوں میں ہی منگوا کے کھا لیتے ۔صبح کا کھانا گھر کی عورتیں کھیتوں میں پہنچا دیتیں ( تب گاؤں میں عورتوں کو ہوس زدہ نظروں سے دیکھنے کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا) اور دوپہر کا کھانا کھیتوں میں لانے کی ذمہ داری ہم بچوں کی ہوتی اور بڑے بزرگ گدھے کی پیٹھ پر بٹھا کر بچوں کو نصیحت کرتے کے دھیان سے اور آہستہ جانا کہیں گڑ کر چوٹ نہ لگ جائے ۔
موجودہ دور میں گاوں کا ماحول بھی نام نہاد چوہدراہٹ کا شکار ہوچکا ہے ۔ جدیدیت کی دوڑ میں گاؤں کے وہ لوگ جو کبھی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے بزرگوں کو احتراماً سرہانے کی طرف جگہ دیتے تھے اور بابوں کے سامنے اونچا بولنے کو گناہ سمجھتے تھے۔ اب یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ چھڈ یار اے بابیاں نوں کی پتا زمانہ کیتھے اپڑ گیا ایہہ (چھوڑو یار !ان بزرگوں کو کیا پتا کہ زمانہ کہا ں پہنچ چکا ہے) چلیے مان لیا کہ آپ "بابوں” کو پس پشت ڈال کر ترقی کرلیں گے لیکن کہیں جدت کی دوڑ میں اپنے بچپن کو بھی فراموش نہ کر بیٹھنا اور تم اپنے اندر بچپن کو کبھی مرنے نہ دینا کہ اس طرح تم بوڑھے نہیں ہوگے۔
افضال احمد تتلا کا تعلق جھمرہ کے نواحی گاؤں دیڑھ سے ہے ۔ مختلف اخبارات میں کالم لکھتے رہتے ہیں ۔ مختلف قومی و علاقائی اخبارات کے ساتھ بطور صحافی بھی منسلک ہیں۔ تعلیم ایم اے ماس کمیونی کیشن ہے اور گولڈ میڈل ایتھلیٹ ہائیر ایجوکیشن پاکستان بھی ہیں۔ کالم نگار سے رابطہ کے لیے تصویر پر کلک کریں