فیصل آباد ( حمزہ اکرم) کامسیٹس(کمیشن آن سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فار سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ ان دی ساؤتھ) بہت جلد فیصل آباد میں بھی اپنا کیمپس کھولے گی تاکہ فیصل آباد کی صنعتوں کے پیچیدہ عملی مسائل کو اعلیٰ تعلیم یافتہ سائنسدانوں کی معاونت سے فوری طور پر حل کیا جا سکے۔ یہ بات کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد کے ایبٹ آباد کیمپس کے ڈائریکٹر پروفیسر امتیاز علی خاں نے آج فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے ساتھ باہمی مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخطوں کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے بتایا کہ کامسیٹس کا مقصد ترقی پذیر ملکوں میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا فروغ ہے۔ اس ادارہ کے کیمپس 29ممالک میں موجود ہیں جبکہ 2018ء میں اس ادارہ کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر اِس کے چانسلر جبکہ وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اس کے پرو وائس چانسلر ہیں۔ یہ پبلک سیکٹر کی یونیورسٹی ہے جو خود انحصاری کے ماڈل پر قائم کی گئی ہے۔ جبکہ حال میں ہی اسے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے فارمولا کے تحت ملک بھر میں کیمپس کھولنے کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس یونیورسٹی سے وابستہ 600پی ایچ ڈی سکالر عملی نوعیت کے سائنسی مسائل حل کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ فیصل آباد صنعت و تجارت کے اہم مرکز کے طور پر ترقی کر رہا ہے جبکہ یہاں کیمپس کے قیام سے صنعت و تجارت کے مسائل کو حل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس تجویز پر سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں جبکہ فیصل آباد چیمبر کے صدر کو یونیورسٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹر ز،سنڈیکیٹ، بورڈ آف سٹڈیز اور دیگر کمیٹیوں میں بھی نمائندگی دی جائے گی۔پروفیسر امتیاز علی خاں نے بتایا کہ اُن کا ادارہ مقامی طلبہ کے علاوہ غیر ملکیوں کو بھی معیاری تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے۔ جبکہ اس وقت بھی 8چینیوں کے علاوہ تنزانیہ اور سری لنکا کے طلبہ بھی اس ادارہ سے پی ایچ ڈی کرر ہے ہیں۔ اس سے قبل مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر عاطف منیر شیخ نے کہا کہ فیصل آباد ملکی معیشت میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے ٹیکسٹائل کی 45-47فیصد برآمدات اس شہر سے ہور ہی ہیں جبکہ ملک کی کپڑے کی 80فیصد ضروریات بھی یہ شہر پورا کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اُن کی بھر پور کوششوں کے باوجود نینو ٹیکنالوجی کو متعارف نہیں کرایا جا سکا تاہم وہ اس سلسلہ میں مقامی یونیورسٹیوں کے علاوہ ملک بھر کے سرکردہ تعلیمی اور تحقیقی اداروں سے بھی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کر رہے ہیں تاکہ موجودہ روایتی صنعتوں کو جدید ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جا سکے۔ حلال مارکیٹ کا ذکر کرتے ہوئے عاطف منیر شیخ نے کہا کہ تھائی لینڈ نے اس شعبہ میں زبردست ترقی کی ہے جبکہ اسلامی ملک ہونے کے ناطے ہمیں بھی اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹیکسٹائل کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ایک ڈالر کی برآمدات کیلئے 80سینٹ خام مال کی درآمد پر خرچ کئے جاتے ہیں اس لئے ہمیں صرف ٹیکسٹائل پر انحصار کو کم کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مکئی کی شاندار پیداوار کے باوجود ابھی تک اس سے تیل اور دیگر ویلیو ایڈڈ مصنوعات حاصل نہیں کر سکے۔ انہوں نے آئی ٹی کے شعبہ کی شاندار خدمات کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ہم اب تک اس کی برآمدات سے صرف 2ارب ڈالر کما سکے جبکہ انڈیا اس شعبہ سے 98ارب ڈالر کما رہا ہے۔ انہوں نے فیصل آباد میں قائم کی جانے والی 2انڈسٹریل اسٹیٹس کا بھی ذکر کیا اور کہاکہ اس وقت یہاں 65چینی اداروں کے علاوہ 11دوسرے ملکوں کے صنعتکار بھی سرمایہ کاری کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے مزید ادارے بھی یہاں سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں اور توقع ہے کہ 2023-30ء تک اس شہر کی ترقی کی رفتار مزید تیز ہو جائے گی۔