فیصل آباد(نمائندہ ایف ٹی وی)حکومت پنجاب کے پالیسی فریم ورک کے مطابق تمام تر قواعد و ضبوابط، شرائط اور میرٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے ایف ڈی اے کے ورک چارج ملازمین کو ورک مین کا درجہ دیاگیاہے۔ ایف ڈی اے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ عدالتی فیصلے کی تعمیل میں حکومت پنجاب کی طرف سے ورک چارج ملازمین کو ورک مین کا درجہ دینے کے لئے مرتب کردہ پالیسی کے مطابق مسلسل 9ماہ سے زائد عرصہ ملازمت کے حامل ملازمین اس زمرے میں آتے تھے۔ ڈپارٹمنٹل، ایڈمنسٹریٹو اور گورننگ باڈی کی نامزد کردہ سیکروٹنی کمیٹیوں نے مختلف اوقات میں ورک چارج ملازمین کی اہلیت،کاکردگی اور دیگر کوائف کی جانچ پڑتال کی اور یہ عمل تقریباً ایک سال کی مدت میں مکمل ہوا جس کے دوران ڈیلی ویجز ملازمین کو اجرتوں کی ادائیگی میں تاخیر کا مسئلہ بھی درپیش رہا۔ ترجمان نے کہاورک چارج ملازمین کو ورک مین کا درجہ دینے کے بارے میں قواعد وضبوابط یامیرٹ کی خلاف ورزی کا تاثر بالکل غلط اور بے بنیاد ہے اس ضمن میں مکمل شفافیت کے ساتھ حکومت پنجاب کی طے شدہ پالیسی، متعلقہ قوانین اور شرائط کا باقاعدہ خیال رکھاگیاہے جس میں کوئی سیاسی اثرورسوخ یا دباؤ درپیش نہیں تھا۔ترجمان نے ورک چارج ملازمین کی سیکروٹنی کے تمام عمل کی تفصیلات سے متعلق بتایا کہ پنجاب ہاؤسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ کی طرف سے موصولہ پالیسی فریم ورک بمعہ ٹی او آر کی روشنی میں اس معاملہ کو گورننگ باڈی کے 111ویں اور112ویں اجلاس میں رکھا گیاجو باالترتیب 6مئی 2021،اور 5جولائی 2021کو منعقد ہوا۔گورننگ باڈی کی منظوری سے تشکیل دی گئی سکروٹنی کمیٹی نے اپنی سفارشات مرتب کیں جوکہ سات اگست 2021کو ایڈ منسٹریٹو ڈیپارٹمنٹ اہور کو ارسال کی گئیں، ایڈ منسٹریٹو ڈیپارٹمنٹ نے ورک چارج ملازمین کی اہلیت جانچنے کیلئے ڈائریکٹر جنرل ایف ڈی اے کی سربراہی میں دوبارہ سکروٹنی/ جائزہ کمیٹی بنادی اور ڈائریکٹر جنرل ایف ڈی اے نے جانچ پڑتال کے بعد اپنی سفارشات 30اکتوبر 2021کو ایڈ مسٹریٹو ڈیپارٹمنٹ لاہور کو ارسال کیں جس پر ایڈ منسٹریٹو ڈیپارٹمنٹ لاہور کی طر ف سے بذریعہ چھٹی مورخہ 10نومبر2021کو ڈائریکٹر جنرل ایف ڈی اے کو اپنی سطح پر مزید ضروری کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔لہٰذا اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل نے ایک بارپھر ورک چارج ملازمین کوورک مین بنانے کے معاملے کو گورننگ باڈی کے 20 جنوری 2022ء کو منعقدہ 115ویں اجلاس میں غور وخوض کیلئے پیش کردیا۔ گورننگ باڈی نے چار رکنی کمیٹی کی سفارشات سے مشروط کرتے ہوئے اس معاملے کی منظوری دی جس نے تمام ورک چارج ملازمین کے انفرادی انٹرویو کے ذریعے کارکردگی اور اہلیت کو چیک کرکے منظوری دی۔ جس کے بعد مجاز اتھارٹی کی طرف سے ورک مین کے احکامات جاری کئے گئے جب کہ ان کی تنخواہوں کے تعین کا معاملہ ابھی تک فنانس ڈیپارٹمنٹ پنجاب میں زیر التو ا ہے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایف ڈی اے میں اس وقت سٹاف کی کافی کمی ہے لہٰذا ورک چارج ملازمین کی خدمات سے مختلف شعبوں کا کام چلایا جارہاہے اور بعض ورک چارج ملازمین دس سے پندرہ سال سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں جو محکمانہ کام کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ ترجمان نے دعوی کیاکہ ورک چارج ملازمین کو ورک مین بنانے کے تمام عمل کو شفاف رکھاگیاہے لہٰذا اس ضمن میں الزامات محض ان ملازمین کے خلاف سازش ہے جنہیں سیکروٹنی کے طویل عمل سے گزرنے کے بعد روزگار کا تحفظ حاصل ہواہے۔