حفیظ اللہ سعید، فیصل آباد
میرا بچپن کوئی پچپن سال پرانا نہیں بلکہ یہی کوئی پچیس چھبیس سال پہلے یعنی 90 کی دہائی پہ مشتمل تھا. بے فکری اور لا ابالی پن کا دور دورہ تھا تب نہ انٹرنیٹ عام ہوا تھا نہ جان کے روگ موبائل سے ابھی واسطہ پڑا تھا۔ شام کے وقت میں ہم بہن بھائی اوپر والی چھت پہ چارپائی بچھا کے لیٹ جاتے اور ایک خیالی سرحد بنا کر چنیوٹ کی طرف سے آنے والے سینکڑوں طوطوں کو گنا کرتے. یہ مقابلہ کچھ اس طرح کا ہوتا تھا کہ سرحد کے ایک طرف سے گزرنے والے طوطے میرے شمار ہوتے تو سرحد کے دوسرے طرف سے گزرنے والے طوطے میرے مقابل کسی میرے بھائی یا بہن کے ہوتے۔ یہ شغل یا مقابلہ مغرب تک چلتا اور جیتنے والا اک عجب سرشاری و خوشی کے نشے میں چور ہوتا۔ (ہمارے دوست لفظ طوطا کے املا پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ "ڈاکٹر رؤف پاریکھ کہتے ہیں کہ یہ لفظ توتا ہے ۔ مزید کہتے ہیں کہ یہ لفظ مقامی ہے اور اسے پلیٹس نے اپنی لغت میں بھی توتا ہی لکھا ہے ۔ اور اس کی اصل سنسکرت بتائی ہے۔ ” اب ہم نے تو اپنی درسی کتب وغیرہ میں طوطا ہی پڑھا ہے بلکہ آج بھی اسے دیکھا تو طوطا ہی لکھا پایا ۔ اب یہ کیا معاملہ ہے یہ تو اہل علم ہی جانیں ہمیں تو ایسے لاینحل مسائل سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ ہم صرف یہ کرسکتے ہیں کہ اپنے بلاگ میں لفظ طوطا جتنی بار بھی اب آے تو اسے توتا لکھ کر اساتذہ کی بات مان لی جاے ۔)
جہاں بچپن گزرا وہی بچپن کے سنگی ساتھی یہ توتے بھی پتا نہیں کس دیس کے راہی بن گئے. آج جب ان پرکیف لمحات کا تصور زہن میں تازہ ہوتا ہے تو اک ہوک سی دل سے اٹھتی ہے کہ کہاں گئے وہ بچپن کے ساتھی؟ توتا بنیادی طور پر انسان دوست پرندہ شمار کیا جاتا ہے. یہی بات ہے کہ اکثر گھروں میں لوگ اسے پالتے ہیں. تو جناب بات ہو رہی تھی لائل پور کے توتوں کی تو ان توتوں کی جائے رہائش زرعی یونیورسٹی، جناح پارک اور اس کے گرد و نواح میں موجود وہ سینکڑوں درخت تھے جن کو ترقی و سڑکوں کی کشادگی کے نام پہ ہے رحمانہ طریقے سے کاٹ کر عمارتوں میں فرنیچر کے طور پہ سجا دیا گیا. جہاں یہ درخت ان توتے کی رہائش کے طور پہ استعمال ہوتے تھے وہیں گرمیوں میں فیصل آباد کے موسم کو ٹھنڈا و معتدل رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہیں جب ٹھنڈی گھوئی روڈ, سرینا و ضلع کونسل روڈ یا ہمارے گھر کے ارد گرد والے راجے والا روڈ و فیض آباد روڈ پر سائیکل لے کر آوارہ گردی کرنے نکلتے تھے ۔ گرمیوں کی دوپہر میں تو ان درختوں کی وجہ سے خنکی محسوس ہوتی تھی ان رستوں میں جبکہ آج ان رستوں پہ گرمی کے موسم میں نکلنا لو لگوانے کے مترادف ہے۔ ہمیں جہاں نت نئے لوازمات کی ضرورت ہے اپنی زندگی کو آسان بنانے کے لیے وہی پر درختوں کی ان سے بھی زیادہ ضرورت ہے ۔اگر ان روٹھے ہوئے اپنے دوستوں کو منانا ہے اور اپنے گھروں و راستوں کو گرمی سے بچانا ہے تو ہمیں ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا کہ گھر کے ہر فرد کا کم از کم ایک درخت ہونا چاہئیے ہماری گلی میں۔ ان درختوں کی وجہ سے جہاں موسم معتدل ہوگا وہیں ہمارے روٹھے ہوئے یار بیلی پرندے پھر سے ہمیں واپس مل جائیں گے اگر آج شجرکاری کے بارے میں من حیث القوم ہم نے سنجیدہ قدم نہ اٹھایا تو پرندے چڑیا گھروں میں تو موجود ہوں گے لیکن ہمارے ماحول کا حصہ ہرگز نہیں ہوں گے۔ آج میری جیسی نسل تو خیالات و تصورات میں ان توتوں اور پرندوں کو یاد کر لیتی ہے لیکن اگر ہم نے شجرکاری کے بارے میں عملی اقدامات نہ اٹھائے تو ہماری اگلی نسل کے پاس ان خیالات و تصورات کا ذخیرہ بھی نہیں ہوگا اور ایسا ہونا ایک المیہ ہی کہلا سکتا ہے۔
حفیظ اللہ سعید کا تعلق فیصل آباد سے ہے ۔ منفرد خیالات کے مالک ہونے کے ساتھ لکھنے کی طرف بھی رحجان رکھتے ہیں ۔
بلاگر سے رابطہ کے لیے ان کی تصویر پر کلک کیجیے ۔