جنید سلمان
آج شام ڈوبتا سورج دیکھ کے نجانے کیوں یکدم دل فیصل آباد جانے کو کیا کیونکہ تقریباً ایک سال ہونے کو ہے ہم نے فیصل آباد نہیں دیکھا۔ایک وقت تھا جب ہم روز شام سے پہلے گھر آجاتے تھے… پھر وقت بدلا تو ہفتہ وار۔۔۔ورنہ مہینے بعد تو آہی جاتے تھے یعنی جب پردیس کو دیکھ دیکھ کے آنکھیں تھک جاتیں تو فیصل آباد کو اڈاری مارنے کا سوچتےاور ایک دم پنکھ سے نکل آتے۔۔۔
پھر رفتہ رفتہ عید ، شب برات پر جانا ہونے لگا پھرحالات بدلے تو سال میں کم ازکم ایک بار تو لازمی گھر کا چکر لگ ہی جاتا۔کیونکہ۔ ۔ ۔
جمالؔ ہر شہر سے ہے پیارا وہ شہر مجھ کو۔
جہاں سے دیکھا تھا پہلی بار آسمان میں نے
اب تو دل شدت سے یہ خواہش کرتا ہے کے کاش۔ ۔ ۔ فیصل آباد کا بھی کوئی دروزاہ ہوتا، کوئی قفل ہوا کرتا جس سے (اپنے)باہر جانے والے سارے راستوں کو مقفل کیا جا سکتا اور پھر کبھی مڑ کر پردیس کا سفر نہ ہوتا لیکن اب یہ سفر ہی زندگی ہے اور مسلسل سفر بھی ایسا کےپھر لوٹ کے ہم واپس یہاں نہ”رہ” سکے کیونکہ "عشق اجرت طلب نہ تھا ورنہ ۔ ۔ ۔ہم تیرے در پر نوکری کرتے !”
بہت وقت نہیں گزرا بس ذرا پچھلی دہائی کی بات ہے جب اعلی تعلیم کے حصول کیلئے پہلی بار ہم نےاس شہر سے ہجرت کی اورپھرحسین مستقبل کے سہانے خواب بنتے بنتے ہم اتنی دور نکل آئے کہ اس شہر سے جڑے خوابوں کی تار ٹوٹ سی گئی ہے۔ ہمیں یاد ہے جب پردیس میں سب لڑکےاپنی "آزادی” کا جشن منا رہے ہوتے تو ایک کونے میں بیھٹے ہم "کب” "کہاں” اور "کیسے” گھر جانے کا پلان بنا رہے ہوتے۔ ہر سمسٹر کے آخر میں لائل پور آنا ہماری سب سے بڑی "آزادی” اور نہ آنا سب سے بڑی "بدنصیبی” ہوا کرتی تھی۔
آج اتنے سال گزرنے کے باجود بھی ہم کوئی اشارہ ، کوئی استعارہ، کوئی سہارا ڈھونڈتے ہیں کہ پیارا "لائل پور” رہے نا "دور” اور عُموماً یہ دید ، عید پہ ہوتی ہے یا یوں کہئے کہ ہماری "عید” اس کی "دید” سے ہے۔
خدا گواہ ہے کے 2005 ء سے لیکر اب تک جب جب اس شہر سے واپس لوٹے ہیں روتے ہوئے ہی آئے ہیں۔ شاید آجکل کے دور میں آپ کو یہ سب تھوڑا ‘میلو ڈرامیٹک’ لگے پر یہی سچ ہے ! مگر سچ تو یہ بھی ہے کے اکثر ہماری عمر کے لوگ اس شہر سے دور جانے اور دنیا گھومنے میں بڑا فخر محسوس کرتے ہیں لیکن ہم نے اب تک دنیا کے درجنوں جوبصورت شہر دیکھے مگر جو سکون اپنے "سوہنے” فیصل آباد میں ہے وہ کہیں اور نہیں ، اس شہرکا ہر رستہ دل سے نکلتا اسی لئےکبھی "گوگل میپس” کی ضرورت نہیں پڑی البتہ اب "گھنٹہ گھر” سے "گھر” تک کا سفر ٹریفک کی زیادتی کی وجہ سے ذرا طویل اور صبر آزما ہو گیا ہے اور اس رستے کے ہر موڑ پر اب بھی ہمیں اپنے بچپن، لڑکپن اورنوجوانی کی ان گنت یادیں ملتی ہیں۔
درحقیقت یہاں بسنے والے ہر شخص پر ہمیں صحیح معنوں میں رشک آتا ہے اور ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کے ہماری "جنم بھومی” ہونے کے باوجود لائل پور ہمارے حصے میں کیوں نہ آسکا ۔ دعا ہے کے کبھی وقت کی رفتار تھمے تو ہم اپنے آپ سے مل سکیں اور "فیصل آباد” سے "فاصلہ” مٹانے کا "فیصلہ” کریں ۔
جنید سلمان کا تعلق فیصل آباد سے ہے ۔ عرصہ دراز سے بیرون ملک روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ سیروسیاحت کے ساتھ بلاگنگ کا شوق بھی رکھتے ہیں ۔ لکھاری سے رابطہ کرنے کے لیے تصویر پر کلک کریں