جنید سلمان ، فیصل اباد
ہم اس وقت 2022ء میں سانس لے رہے ہیں اور
بھل صفائی مہم کے دوران نہر سے سیپیاں ڈھونڈنے جانا ، عکاس سٹوڈیو کے بغیر کسی یاد کا مکمل نہ ہونا ، قومی صنعتی نمائش کا ہونا ،اک "METRO” کے افتتاح پر پورے شہر کا امڈ آنا ، نصرت صاحب کی قوالی کے عشق میں رحمت گراموفون کے چکر لگانا ، چنیوٹ بازار کے باہر کھلے McDonald’s کا صرف اس لیے بند ہو جانا کے فیصل آبادیوں کی بھوک ایک برگر سے کہیں زیادہ ہے، ٹوٹا بازار کا لوگوں کے ٹوٹے خواب جوڑنا ، اقبال سٹیڈئم کے باہر لگے دراز قد "بال اور بلا”، کمپنی باغ کی سڑک کا ٹھنڈا اندھیرا ، پارکنگ کی تلاش میں گھنٹہ گھر کا طواف اوراس کے علاوہ بہت کچھ ۔ ۔
کوئی مانے یا نہ مانے "آبائی شہر” اور "گھر” سے جڑا تعلق عمر کے فرق کی طرح ہوتا ہے مٹانے سے بھی مٹ نہیں! سکتا چاہے آپ جہاں بھی چلے جائیں جتنی بار بھی چلے جائیں۔
مجھے یاد ہے اپنے کام کی نوعیت کی وجہ سے”وہ کہیں بھی گیا لوٹا تومیرے پاس آیا” کے مترادف درجنوں نہیں ،سینکڑوں بلکہ ہزار بار اس شہر کا سفر کیا ہے۔۔۔ اکثر ٹرین اس سمت گئی جہاں میں جانا نہیں چاہتا تھا اور کبھی سفر کی کثرت کے باعث موٹر وے کے چپے چپے سے واقف ہوگیا۔ وقت ایسا بھی آیا کہ لاری اڈہ کے سارے جگنو میرے واقف بن گئے کیونکہ وہ بھی ٹھہرے رات کے مسافر اور میں بھی، وقت گزرتا گیا پر بورڈنگ پاس پر لکھے کوڈ "LYP” کی اہمیت کم نہ ہو سکی۔غرض ایک آوارہ بادل کی طرح میں کبھی "یہاں” تو کبھی "وہاں” پر اور جب بھی اس شہر کی دہلیز پر آیا "آنسوؤں” کی مانندخوب برسا۔۔۔۔ تب شہر کے گلی کوچوں سے آواز آتی "پگلے ! اب تو لوٹ آیا ہے۔۔۔اب کیوں روتا ہے ؟؟؟؟
دل نے کہا ” آج واپس آ کے احساس ہوا ہے کہ مجھے "یہاں لوٹنے پربھی رونا ہے اور بچھڑنے پر بھی رونا ہے”
بچپن سے جوانی آئی اور جوانی سے بڑھاپا آگیا لیکن اس شہر سے جڑی میری کہانی ابھی باقی ہے۔۔۔۔۔
کیونکہ ہجر کا سفر ابھی باقی ہے، عارف امام کیا خوب کہتے ہیں
تمہارے ہجر میں مرنا تھا کون سا مشکل
تمہارے ہجر میں زندہ ہیں یہ کمال کیا