فیصل آباد ( حمزہ اکرم) سولر پینل پر 17فیصد سیل ٹیکس وزیر اعظم عمران خان کے ماحولیاتی آلودگی سے پاک منصوبے کو سبو تاژ کرنے کی کوشش ہے جس سے اس شعبہ میں ہونے والی اربوں روپے کی سرمایہ کاری بھی رک جائے گی۔ یہ بات فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر عاطف منیر شیخ نے آج پاکستان سولر ایسوسی ایشن کے ہمراہ ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ چیمبر کے ممبران کا تعلق 113مختلف ٹریڈ ز سے ہے جبکہ مختلف تجارتی تنظیموں کی Mother organization ہونے کے ناطے ہم ہر سیکٹر کے جائز مسائل کو لے کر چلتے ہیں اور ان کو حل بھی کراتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اِن مسائل کو اعلیٰ سطح پر پہنچانے میں میڈیا نے ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے اور وہ اس کیلئے میڈیا کے مشکور ہیں۔ سولر سے متعلقہ مسائل کا ذکر کرتے ہوئے عاطف منیر شیخ نے کہا کہ وزیر اعظم کے گرین پاکستان کی بنیاد ہی سولر ٹیکنالوجی کے فروغ پر ہے کیونکہ اس وقت ہم آئی پی پیز سے مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہیں جبکہ کوئلے، پٹرول اور گیس سے کاربن کے اخراج سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے زیادہ تر کوئلے اور گیس سے چلنے والے بجلی گھر تعمیر کئے جس کی وجہ سے سب سے زیادہ زرمبادلہ پٹرول کی درآمد پر خرچ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گیس کے ذخائر میں کمی کے بعد دوسرا بڑا بل ایل این جی کا ہو جائے گا جبکہ ان سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی مزید اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت خود ماحول دوست سستی بجلی کے استعمال کو فروغ دینا چاہتی ہے یہی وجہ ہے کہ سٹیٹ بینک اس مقصد کیلئے کم مارک اَپ پر قرضے دے رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ شوکت ترین نے قومی اسمبلی کے فلور پر اعلان کیا تھا کہ سولر کو 17فیصد سیل ٹیکس کی لسٹ سے نکال دیا گیا ہے مگر اگلے دن ہی یہ ٹیکس نافذ کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود ٹیکسٹائل کیمیکلز اور ڈائز درآمد کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ 17فیصد سیل ٹیکس کا Net impact سوا چوبیس فیصد ہوگا۔ اس طرح سولر سے متعلقہ تمام اشیاء مہنگی ہو جائیں گی اور حکومت کا ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں سولر پر سیل ٹیکس کے نفاذ کو صدارتی آرڈینیس یا اسمبلی کے ذریعے واپس لے بلکہ اس شعبے کی ترقی کیلئے مزید مراعات بھی دی جائیں۔ پاکستان سولر ایسو سی ایشن فیصل آباد کے صدر احمد نواز نے کہا کہ سولر پر سیل ٹیکس سے زرعی شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوگا کیونکہ دور دراز دیہی علاقوں میں جہاں بجلی میسر نہیں وہاں سولر سے ہی زرعی ٹیوب ویل چلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے زرعی اجناس کی پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا لہٰذ ا اس ٹیکس کو واپس لینا خود حکومت کے اپنے مفاد میں ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ 2010ء تک سولر سے 20سے 50میگا واٹ تک بجلی پیدا ہوتی تھی جو 2022ء میں بڑھ کر 2ہزار میگا واٹ تک پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اَب ہم بڑی تعداد میں سولر پینل درآمد کر رہے ہیں جس کے بعد اِن کی مقامی طور پر پیداوار کی منصوبہ بندی کی جارہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے اس غیر دانشمندانہ فیصلہ سے اربوں کی سرمایہ کاری رک جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ حکومت خود سولر کے فروغ کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے اور اس سلسلہ میں سٹیٹ بینک کے ذریعے 200ارب روپے کم مارک اَپ پر تقسیم کئے جار ہے ہیں جبکہ اس سکیم کو ناکام بنانے کیلئے طاقتور مافیا کام کر رہا ہے جس میں آئی پی پیز بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ہزاروں کی تعداد میں سولر کے کنٹینر مختلف درآمدی بندرگاہوں پر پڑے ہیں اور ان کو منگوانے والے راتوں رات 17فیصد سیل ٹیکس اور 3فیصد ایڈیشنل ٹیکس کی وجہ سے اُن کو کلیئر نہیں کروا رہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ اس ٹیکس کی واپسی کے سلسلہ میں حکومتی ارکان اسمبلی سے رابطہ میں ہیں تاہم پہلے مرحلے پر بات چیت کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جائے گی جبکہ دوسرے مرحلہ میں تمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ اس موقع پر علی احسن ملک کے علاوہ سولر ایسوسی ایشن کے مقامی ممبران بھی موجود تھے۔