فیصل آباد(حمزہ اکرم) پورٹ قاسم سے سویابین سیڈ کی درآمدی کنسائنمنٹس کو فوری طور پر ریلیز نہ کیا گیا اور آئندہ 15سے 20دنوں تک پولٹری سے وابستہ صنعت بند ہو نا شروع ہو جائے گی جبکہ خوراک کی قلت سے بڑی تعداد میں چوزوں کے مرنے کے خدشات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ بات پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین اور فیصل آباد چیمبر آف کامر س اینڈانڈسٹری کے سینئر نائب صدر ڈاکٹر سجاد ارشد نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے بتایا کہ سالونٹ انڈسٹری گزشتہ 10سالوں سے سویا بین درآمد کر رہی ہے جس کا تیل انسانی خوراک کے طور پر استعمال ہور ہا ہے جبکہ اِس کے Meal کو پولٹری اور اینیمل فیڈ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس صنعت سے 2ملین افراد براہ راست منسلک ہیں اگر 6لاکھ ٹن سویابین سیڈ کی درآمدی کنسائنمنٹس کو فوری کلیئر نہ کیا گیا تو آنے والے 15سے 20دنوں میں فیڈ کا سٹاک ختم ہو جائے گا اور پولٹری فارم کے ساتھ ساتھ فیڈ ملیں اور اس سے منسلک دیگر صنعتیں بھی بند ہونا شروع ہو جائیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ سویا بین Meal جس کی قیمت 95روپے فی کلو تھی اب 300روپے میں بھی دستیاب نہیں۔ انہوں نے اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا کہ پولٹری کی صنعت گوشت کی 50فیصد ضروریات کو پورا کر رہی ہے جبکہ پروٹین کی قلت کی وجہ سے 44فیصد بچے عدم بڑھوتری اور 43فیصد افراد غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ 20فیصد افراد کو سرے سے کھانے کو بھی کچھ دستیاب نہیں۔ا نہوں نے بتایا کہ حکومت اور سالونٹ انڈسٹری کے درمیان تنازعہ کی وجہ سے پولٹری کی صنعت متاثرہو رہی ہے۔ پولٹری فیڈ کے بڑے یونٹوں کے پاس ڈیڑھ دو ماہ کا سٹاک موجود ہے جبکہ 50سے زائد چھوٹے یونٹ بند ہو چکے ہیں اور اگر اس صورتحال کا فوری نوٹس نہ لیا گیا تو بڑے ادارے بھی بتدریج بند ہو جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس مسئلہ کو وزیر اعظم سمیت تمام اعلیٰ حکام کے نوٹس میں لا چکے ہیں مگر ابھی تک اس کو حل نہیں کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ پولٹری ایسوسی ایشن نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں احتجاج کیا ہے جبکہ آج فیصل آباد میں پریس کانفرنس کی جا رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اس مسئلہ پر فوری توجہ نہ دی گئی تو وہ سڑکوں پر بھی آسکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر سجاد ارشد نے کہا کہ فیڈ کی قلت کی وجہ سے پولٹری کے نرخوں میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے اور موجودہ سٹاک ختم ہونے پر مرغی کے گوشت اور انڈوں کی دستیابی نیا مسئلہ کھڑا کر سکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر ایک دفعہ پولٹری کی ”چین“ ٹوٹ گئی تو اس کی بحالی میں کئی سال لگ سکتے ہیں کیونکہ جی پی اور بریڈرز سے لے کر کھانے کے قابل مرغ تیار ہونے میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہ صنعت بند ہوئی تو بے روزگاری کے ساتھ امن وامان کی صورتحال بھی حکومت کے قابو سے باہر ہو سکتی ہے۔ اس لئے حکومت کو سنجیدگی سے اس مسئلہ کے حل پر توجہ دینی چاہیے۔ اس موقع پر نائب صدر حاجی محمد اسلم بھلی، ڈاکٹر اعجاز نثار، ڈاکٹر شاہد اور پولٹری ایسوسی ایشن کے دیگر عہدیدار بھی موجود تھے