سمارٹ مینجمنٹ پریکٹسز سے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے 5ملین یورو کا خصوصی ریوالونگ فنڈ قائم کیا گیا ہے جس کے ذریعے ٹیکسٹائل اور لیدر کی برآمدات بڑھانے پر توجہ دی جائے گی۔ یہ بات ورلڈ وائیڈ فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے سینئر ڈائریکٹر برائے پانی، خوراک اور ماحول ڈاکٹر مسعود ارشدمخدوم نے فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر عاطف منیر شیخ سے ایک ملاقات کے دوران بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ ”ناما“ (NAMA) کے نام سے جرمنی اور یوکے کے مشترکہ کنسورشیم نے ترقی پذیر ملکوں کو گرین پریکٹسز کی طرف لانے کیلئے مالی وسائل مہیا کئے ہیں۔ NAMAکے بارے میں انہوں نے بتایا کہNationally Approved Mitigation Action اِس کا بنیادی مقصد ماحولیات کو نقصان پہنچانے والی گیسوں کے اخراج کو کم کرنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یورپی یونین نے اس سے قبل بھی جی ایس پی پلس کے نام سے بعض شرائط کے تحت بہت سی سہولتیں دی ہیں مگر پاکستان ان سے بھی پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا سکا جبکہ ان شرائط پر بھی مکمل طور پر عمل نہیں کیا جاسکا۔ تاہم انہوں نے بتایا کہ بعض شعبوں میں پاکستان نے بہت اچھا کام کیا ہے مگر اِن کی مؤثر تشہیر نہیں کی جا سکی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ NAMAکے قابل عمل ہونے کے بارے میں ایک مطالعاتی رپورٹ چھ ماہ میں تیار کی جائے گی تاکہ اس سکیم کو پاکستان کے زمینی حقائق سے ہم آہنگ کر کے اس سے بھر پور فائدہ اٹھایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ گرین بینکنگ کیلئے بھی راہنما اصولوں کا تعین کیا جا رہا ہے جس کے تحت سولر انرجی کیلئے بینک کم مارک اَپ پر قرضے دے رہے ہیں۔ اسی طرح چھوٹی صنعتوں کی استعداد کار کو بڑھانے اور ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کیلئے بھی قرضے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کو اس سلسلہ میں ڈبلیو ڈبلیو ایف کی مدد کرنی چاہیے۔ صدر عاطف منیر شیخ نے کہا کہ معیشت میں بہتری کیلئے اچھی منصوبہ بندی کی جاتی ہے مگر اس پرعمل درآمد نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں صنعتی شعبہ کا رد عمل بھی بہت اچھا نہیں جس کی وجہ سے ہم ان منصوبوں سے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پاتے۔ انہوں نے نیشنل انرجی ایفی شنسی اور کنزرویشن اتھارٹی کے زیر اہتمام فیصل آباد میں ہونے والی حالیہ میٹنگ کا ذکر کیا اور کہا کہ انہوں نے بھی بجلی کے ضیاع کو روکنے کیلئے اچھے اقدامات تجویز کئے ہیں تاہم ان کے بارے میں متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصل آباد میں صنعتیں قائم کرنے والوں کی اب دوسری نسل میدان میں آچکی ہے۔ یہ زیادہ پڑھے لکھے نوجوان ہیں جو پرانے کلچر کو تبدیل کر کے جدت کی طرف گامزن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ نوجوان نئے بزنس ماڈل کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ کے اسے اپنا بھی سکتے ہیں۔ اس طرح صنعتوں کی انرجی آڈٹ سے بجلی کے ضیاع کو روکنے کے علاوہ ماحول پر ممکنہ منفی اثرات کی بھی روک تھام کی جا سکے گی۔ یورپین یونین کی طرف سے جی ایس پی پلس کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ بہت سی پابندیوں کے ساتھ بعض مراعات دی گئی ہیں لیکن اس کے باوجود ہم ان سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھا سکے۔ انہو ں نے خواتین کے حوالے سے بتایا کہ ابھی تک صنعتی اداروں میں خواتین کیلئے الگ ٹائلٹس اور واش روم نہیں بن سکے تاہم امید ہے کہ نئی منصوبہ بندی سے اس صورتحال میں مزید بہتری آئے گی اور اس کے نتیجہ میں ہماری برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔ انہوں نے ڈبلیو ڈبلیو ایف کے سینئر ڈائریکٹر سے کہا کہ وہ”ناما“کے بارے میں انہیں تفصیلات ارسال کریں تاکہ اِن کو فیصل آباد چیمبر آ ف کامرس اینڈانڈسٹری کے 8000ممبروں میں سرکولیٹ کیا جا سکے۔ انہوں نے اس حوالے سے ایک آگاہی سیشن رکھنے کی بھی تجویز دی تاکہ اس میں اداروں کے متعلقہ سٹاف کی شرکت کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ٹیم کو خاص طور پر آل پاکستان ٹیکسٹائل پروسیسنگ ملز ایسوسی ایشن اور پاکستان ہوزری مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کو بھی اعتماد میں لینا چاہیے۔