محمد عتیق گورائیہ
فیصل آباد جسے آج بھی ایک نسل لائل پور کے نام سے پکارتی ہے۔ کسی دور میں ساندل بار کہلاتا تھا۔ ساندل بار کی تہذیبی و ثقافتی روایات اگرچہ صدیوں پر محیط ہیں لیکن کوئی ایک صدی قبل اس کی پہچان پسماندہ ترین علاقوں میں سے ایک تھی۔ ساندل بار کی وجہ تسمیہ میں مختلف آرا موجود ہیں جن میں ایک دلا بھٹی کے دادا کے ساتھ منسوب ہے، دوسری شاہکوٹ کے ڈاکو سردار کے نام سے اور تیسری چوہڑ خان عرف ساندل سے منسوب ہے۔ 1885ء میں لیفٹیننٹ گورنر مسٹر جیمس لائل نے تحصیل چنیوٹ کے بے آباد مگر سرسبز و شاداب علاقے کے گاؤں پکی ماڑی میں قیام کیا۔ قیام کے دوران میلوں سفر طے کیا اور علاقے کو دیکھ بھال کر پکی ماڑی کے جنوب مغرب میں ایک نئے شہر کی داغ بیل ڈال دی۔لمبی چوڑی کاغذی کارروائیوں اور منصوبہ سازی کے تحت اس شہر کو آباد کیا گیا۔مشہور زمانہ رکھ برانچ کی تعمیر کی گئی۔سانگلہ ہل سے شورکوٹ کے علاقے تک ریلوے لائن بچھانے کا اہتمام کیا گیا۔ دیہات بندی کا نظام لایا گیا اور دوسرے علاقوں سے لوگوں کو یہاں لاکر انھیں زمینیں دی گئیں۔1890ء میں جنگل کاٹ کر کنواں بنایا گیا جہاں بعد میں گھنٹہ گھر تعمیر کیا گیا۔ نہرلوئر چناب کی تعمیر کے بعد باقاعدہ اور بتدریج شہر کو آباد کرنے اور آبادکاروں کو لانے کی کوشش کی گئی۔1900ء تک ریلوے لائن کو خانیوال تک ملادیا گیا۔1896ء میں جب شہر کی کچھ نہ کچھ آبادی بن چکی تھی اور کچھ دفاتر بھی معرض وجود میں لاے جاچکے تھے تو سرجیمز بی لائل نے چک 212کا سنگ بنیادرکھااور اس کی چارایکڑ زمین کو لائل پور کا نام دیا۔اگر ہم نام کو دیکھیں تو پہلے لفظ کا تو سیدھا سا مفہوم نکلتا ہے کہ سرجیمز نے اپنے نام کا لائل ادھر لگایا اور اگر پور کی بات کریں تو اس کا ایک مطلب دروازہ ہوگا اور دوسرا مطلب گاؤں، قصبہ بھی ہے۔
سوڈان کے شہر خرطوم کا نقشہ یونین جیک کی طرز پر لائل پور کے لیے کیپٹن پونام ینگ نے بنایا۔1897ء کے لگ بھگ قیصری دروازے کی تعمیر لالہ موہن لعل خلف بہاری لعل نے کروائی۔اسی کے قریب کوئی 150فٹ دوری پر گمٹی تعمیر ہوئی جسے قیام پاکستان کے بعد بھی کئی سالوں تک مسافر خانے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ 8بازاروں کے درمیان میں گھنٹہ گھر تعمیر ہوا اور حکومت نے زمین داروں سے دوٹکے کے حساب ٹیکس عاید کیا گیا۔ گھنٹہ گھر کی تعمیر انگریزی فن تعمیر کا نادر نمونہ ہے۔اس کی تعمیر تاج محل کے معماروں کے خان دان کے ایک فرد گلاب خان کی نگرانی میں کی گئی۔ گھڑیال ممبئی سے آیا۔ ڈیزائن اگرچہ کسی اور نے بنایا تھا لیکن اسے اصل صورت سر گنگا رام نے بخشی تھی۔چلتے چلتے ہندوستان حصوں میں بٹا اور بھارت و پاکستان بنا اور پھر تاریخ آہستگی سے آگے بڑھتی رہی اور جب شاہ فیصلؒ کو شہید کیا گیا تو 1977ء میں اظہار یک جہتی کے لیے لائل پور کا نام ”فیصل آباد“ کردیا گیا۔شہر لائل پور کو قائداعظم ؒکی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہے۔فیصل آباد نے اپنی پہچان کئی لوگوں کو دی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل سندر داس عاصی،نندلال پوری اور تیجاسنگھ صابر جیسے نام شاعری میں مشہورومعروف تھے۔1956ء تک لائل پور کاٹن مل میں دہلی کے بعد سب سے بڑے مشاعرے ہوتے رہے ہیں۔مشہور سائنس دان ڈاکٹر سعید اختر دررانی،ضیا محی الدین،نصرت فتح علی خاں،راحت فتح علی خاں اور ریشم جیسی کئی مشہورومعروف ہستیوں کا مسکن ہمارا لائل پور ہی ہے۔حبیب جالب نے جب اپنا ایک عرصہ لائل پور میں گزارا تو اس کی یاد میں کہا کہ” ؎لائل پوراک شہر ہے۔۔۔ جس میں دل ہے آباد میرا“ کس کس کا ذکر کروں؟ آنکھوں کے سامنے ان عظیم ہستیوں کی تصاویر گھوم رہی ہیں جو لائل پور سے تعلق رکھتی تھیں اور اب تاریخ کے پنوں پر مقید ہیں۔
محمد عتیق گورائیہ کا تعلق فیصل آباد سے ہے ۔ عرصہ دراز سے زنجیر عدل کے عنوان سے پاکستانی اخبارات میں کالم لکھتے رہے ہیں ۔ کچھ عرصہ پاکستانی اخبار روزنامہ جسارت کے مناظر عالم صفحے کے ساتھ بطور کالم نگار منسلک رہے ہیں اور پھر سعودی اردو اخبار روزنامہ اردو نیوز سے بطور کالم نگار بھی منسلک رہے ہیں۔