تحریک انصاف کو مبارک ہو کہ انھوں نے عوامی حمایت کے ساتھ وفاق و صوبائی حکومت مسلم لیگ ن کی ہوتے ہوے بھی اعلا ترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ مشکل ترین حالات میں تحریک انصاف نے مضبوط ترین جماعت ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر عمران خان کی آواز پر لبیک کہتا ہوا ضمنی انتخاب میں گھروں سے باہر نکل آیا۔ منحرف ہونے والے اراکین کی سیٹوں پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں جس طرح سے کام یابی سمیٹی ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ عمران خان ایک ایسا بیانیہ لے کر سامنے آیا ہے جس کو عوامی سطح پر اس قدر پزیرائی مل چکی ہے کہ وہ سرفہرست جماعت بن کر پھر سے سامنے آ گئی ہے۔مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور دیگر پرانی جماعتوں کے ہوتے ہوے وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھنا اور پھر عدم اعتماد کی صورت میں وزارت عظمیٰ اور پنجاب کی حکومت کا جانا جہاں تحریک انصاف کے لیے خاصا تکلیف دہ مرحلہ تھا اس سے مشکل مرحلہ اپنے آپ کو ضمنی انتخابات میں لانا اور پھر حکومتی عہدوں پر بیٹھے اتحادیوں سے جیتنا بھی تھا۔ غیرسرکاری نتائج سے ثابت ہوچکا ہے کہ تحریک انصاف نے ان سارے مراحل سے اپنے آپ کو نکال لیا ہے اور ثابت کردیا ہے کہ وہ سیاسی اکھاڑے میں بہ ترین کھیل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
فیصل آباد میں ہونے والے حالیہ ضمنی الیکشن کی اگر بات کی جاے تو یہاں پر اصل مقابلہ جیسا کہ خیال کیا جارہا تھا بالکل مسلم لیگ ن کے اجمل چیمہ اور تحریک انصاف کے علی افضل ساہی کے درمیان ہی ہوا ہے۔ ضمنی الیکشن کی بات کرنے سے قبل ذرا ماضی پر بات کی جاے تو 2018ء میں ہونے والے الیکشن میں اجمل چیمہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے منتخب ہوے تھے۔ اس منتخب ہونے میں بھی ایک بنیادی حصہ تحریک انصاف کے ووٹ کا تھا کیوں کہ اجمل چیمہ ٹکٹ ملنے سے قبل اپنی ساری کمپیئن تحریک انصاف کے لیے کررہے تھے اور ٹکٹ نہ ملنے کے باعث آزاد حیثیت سے لڑ کر منتخب ہوگئے۔ یہاں میں ایک بات کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ اُس وقت قومی اخبار کے بلاگ(روزنامہ ایکسپریس) میں لکھا تھا کہ تحریک انصاف این اے 101 سے ہارے گی اور اک وجہ اجمل چیمہ کو پی پی 97 سے ٹکٹ نہ دینا ہوگی۔تحریک انصاف نے اس وقت این اے 101اور پی پی 97،98کی ٹکٹیں ساہی خاندان کو دے دی تھیں اور حلقہ کے عوام نے اظہار ہمدردی اور تحریک انصاف کے اس فیصلے پر غصے کا اظہار کرتے ہوے اجمل چیمہ کو منتخب کرلیا تھا۔ آزاد حیثیت سے جیتنے کے بعد تحریک انصاف میں گئے اور پھر آخری سیاسی چال میں مسلم لیگ ن کا ساتھ دے کر عدم اعتماد کو کام یاب کروایا۔ عدالت کے فیصلے کے بعد دیگر منحرف اراکین کی طرح انھیں بھی سیٹ سے ہاتھ دھونا پڑا اور یوں ضمنی الیکشن میں پھر سے عوامی عدالت میں آکھڑے ہوے۔
ضمنی انتخاب کے اب تک کے غیر سرکاری نتائج کے مطابق علی افضل ساہی 67,022ووٹ لے کر جیت چکے ہیں۔ شروع کے دنوں میں اگرچہ علی افضل ساہی کی پوزیشن قدرے کمزور تھی لیکن گزرتے وقت کے ساتھ علی ساہی نے اپنا سیاسی قد کاٹھ اس طرح سے دکھایا کہ مخالفین بھی حمایت کرنے پر مجبورہوے۔کچھ پرانی رنجشوں کو ختم کیااور علاقے کی سیاسی شخصیات سے مل کر انھیں اپنی حمایت پر آمادہ کیا۔اجمل چیمہ نے بھی دن رات ایک کیا اور اپنے حمایت میں لوگوں کو مزید آمادہ کیا۔ اجمل چیمہ کو ایک بات کا سہرا جاتا ہ ے کہ انھوں نے حلقہ کے دکھ سکھ میں عوام کا ساتھ دیا ہے اور لوگ اس بات کا اظہار سربازارومحفل کرتے نظرآتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کے اس حلقہ میں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی، تحریک لبیک اورپاکستان نظریاتی پارٹی کے امیدواروں سمیت 12افراد نے حصہ لیا جن میں سے 7آزاد امیدوارتھے۔ الیکشن میں حصہ لینے والی شخصیات میں فواداحمد چیمہ، علی افضل ساہی، طارق محمود باجو، اجمل چیمہ،علی احمد گورایہ، نوید شفیع،شیرافگن ودیگر تھے۔ الیکشن والے دن اکادکا بدنظمی و چھوٹی موٹی لڑائی کے سواباقی خیرخیریت ہی رہی اور خاصے پرامن ماحول میں عوام نے اپنا حق راے دہی استعمال کیا۔ یہاں پر الیکشن کمیشن،انتظامیہ و سیکیورٹی اداروں کا شکریہ ادا نہ کرنا ناشکری ہوگی۔ایک دولہا تو شادی والی گاڑی میں ہی اپنا حق استعمال کرنے لیے جاپہنچاتھا اس کے علاوہ نوجوان، بوڑھے، مریض اور معذور افراد بھی ووٹ ڈالنے کے لیے آے اور یوں اس حلقہ کی شرح 52.3فیصد تک رہی۔ حلقہ میں ووٹوں کی خواتین سمیت 2,55,884تعداد ہے جن میں سے 1,33,819ووٹ ڈالے گئے۔
اس جیت میں اہم کردار عمران خان کی آمد نے کیا اور لوگوں کے اذہان وقلوب کو اپنی طرف کھینچا دوسرے الفاظ میں اہل حلقہ کو اہمیت دیا جانا اچھا لگا جبکہ دوسری طرف مریم نواز جو اس ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ ن کی کمپیئن کا بنیادی حصہ تھیں اس حلقہ میں معلوم نہیں کیوں نہیں لائی جاسکیں۔ اس حلقہ میں دوسرے حلقوں کی طرح اصل جیت عمران خان کے بیانیے کی ہوئی ہے اگرچہ منہگائی نے بھی ایک اپنا کرداراداکیا ہے۔عوام سمجھتی ہے کہ اس کا ووٹ عمران خان جیسے شخص کو جانا چاہیے۔ عمران خان کی مقبولیت شہروں،قصبوں سے ہوتی ہوئی دیہاتوں میں بھی پہنچ چکی ہے۔ن لیگ کے ہارنے کی وجہ منحرف اراکین کو ٹکٹ کا ملنا تھا جس سے ن لیگی ووٹ بددل ہوااور عام عوام کا ووٹ بھی اسی بددلی کے باعث عمران خان کے امیدوارکو چلا گیا۔تحریک انصاف نے کام یاب حکمت عملی سے اپنے بہ ترین پتے کھیل کر ثابت کردیا ہے کہ مسلم لیگ ن کے ہاتھ پنجاب نکل چکا ہے اور اگر مسلم لیگ ن پنجاب میں جیتنا چاہتی ہے تو جنرل الیکشن سے پہلے پہلے اسے دن رات ایک کرکے تیاری کرنی ہوگی وگرنہ اگر پنجاب گیا تو سمجھو وفاق بھی گیا۔